تازہ ترین

Post Top Ad

لوڈنگ۔۔۔

جمعرات, جولائی 16, 2020

قلعہ بخارا کی سیر

آج بخارا میں ہمارا دوسرا دن تھا میرے دوستوں نے قلعہ بخارا کی سیر کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ یہ مشہور قلعہ جسے آرک فورٹرس یا بخارا آرک کے نام سے کہا جاتا ہے۔پانچویں صدی عیسوی میں اسکی تعمیر ہوئی، جو تقریباً اسی کنال کے رقبے پر محیط ہے۔ قلعے کی دیواریں 52 سے 66 فٹ تک اونچی ہیں۔ اس قدیم اور وسیع و عریض قلعے کو کئی بار شکست و ریخت کا سامنا رہا۔ کئی مرتبہ یہ تباہ ہوا اور کئی مرتبہ اس کی تعمیر دوبارہ کی گئی۔ یہ قلعہ دفاعی ضروریات کے ساتھ بخارا کے حکمرانوں کی ذاتی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا تھا۔ اس کے علاوہ یہ قلعہ علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا ہے۔ اسی طرح کا قلعہ بہاولپور میںبھی موجود ہے جسے قلعہ دراوڑ کہتے ہیں یہ بہاولپور شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر دور صحرائے چولستان میں واقع ہے۔

تاریخی حوالوں کے مطابق اس قلعے میں مختلف ادوار میں کئی معروف شخصیات نے درس و تدریس کی خدمات سرانجام دیں ان میں فردوسی، الفارابی، ابن سینا اور عمر خیام کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ابن سینا کہتے ہیںکہ اس قلعے میں نایاب کتب پر مشتمل ایک بہت بڑی لائبریری بھی موجود تھی، لیکن بار بار جنگ و جدل کا سامنا کرنے والے اس قلعے نے جہاں کئی اور عروج و زوال دیکھے وہاں اس نے اس نایاب لائبریری کا نشان تک مٹتے دیکھا۔ پھر بھی یہ تاریخی قلعہ میں آج بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ حکمران اس قلعے کو تاج پوشی کے لیے بھی استعمال کرتے تھے اس کے لیے انہوں نے ایک ہال مختص کیا ہوا تھا یہ ہال اور استقبالیہ قلعے کا وہ سب سے قدیم خوش نصیب حصے ہیں جو 1920 میں روسی بمباری میں محفوظ رہے البتہ چھت منہدم ہوگئی۔ آج کل اس وسیع قلعے کے بیشتر حصوں کو محفوظ کرنے کے لیے اسے میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ہے، اس میوزیم میں نہ صرف اس قلعے کے بارے میں بلکہ بخارا، ازبکستان، اس خطہ ارضی اور یہاں کے رہن سہن کے حوالے سے بھی دلچسپ اشیا اور معلومات موجود ہیں۔ شام کو قلعہ اردگرد چہل قدمی کرتے ہمیں یقینی طور پر اس پُرشکوہ دور کی یادیں تازہ ہوئی پوری تاریخ آنکھوں کے سامنے تھی کہ کس طرح اس قلعے کے مختلف حصے حقیقی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہاں پر اس وقت کے حکمرانوں اور سرکاری عہدیداروں کی رہائش گاہیں، امورِ سلطنت چلانے کے لیے ضروری دفاتر اور دشمن سے بچاو کے لیے دفاعی انتظامات موجود تھے۔ کہتے ہیں کہ اس قلعے میں 3 ہزار سے زائد افراد کی رہائش کا بندوبست تھا۔ یعنی یہ قلعہ، بخارا شہر کے درمیان خود ایک عظیم شہر تھا۔ قلعے کی چھت سے ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ ماضی کی داستان کے پس منظر میں ایک عجیب کیفیت طاری کر رہا تھا۔ بخارا کے اس عظیم الشان ارک قلعے سے محمد عالم خان نے آخری لڑائی لڑی تھی۔
مسلمان حکمرانوں کے عہد میں قلعہ میں ایک بہت بڑی جامعہ مسجد بھی تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد آج کل نماز نہیں ہوتی لیکن اس جگہ کواب خوبصورت میوزیم جس میں اسلامی نوادرات رکھے گئے ہیں بنا دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم کے قدیم اور نایاب نسخے موجود ہیں۔دوسری قدیم تاریخی 'اسلامی کتب کا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ قلعے کی سیرکرنے والے ان کتب کو عقیدت و احترام سے دیکھتے ہیں۔ یہ نادر اور مقدس اوراق مختلف ادوار میں، جنہیں سلطنت کے مختلف حصوں سے جمع کیا گیا اس میوزیم میں یہ علمی ورثہ محفوظ ہے۔ یقینا خوش آئند امرہے۔ (ملک اللہ بخش کلیار)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شکریہ! ہماری ویب سائٹ ملاحظہ کرنے کے لئے .... ہمیں امید ہے کہ یہ پوسٹ آپ کے لئے بہت مفید ہے. کوئی سوال ہے؟ یا اگر آپ اس پوسٹ سے متعلق کسی قسم کی مدد چاہتے ہیں۔ تو ذیل میں دیئے گئے کومینٹ باکس میں دائر کریں۔ اگر آپ اس مراسلہ سے محبت کرتے ہیں یا اسے پسند کرتے ہیں تو اسے اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں.
حوالہ جات: ٹانگوالی ٹیوٹس مینجمنٹ

Post Top Ad